State Determination: End of Terrorism, Sectarianism and Violent behavior (Urdu Essay)

State Determination: End of Terrorism, Sectarianism and Violent behavior (Urdu Essay)

[pukhto]

عنوان:  ریاست کا عزم:دہشت گردی فرقہ واریت اور متشدد رویوں کا خاتمہ

آج میں جس موضوع پر اپنے قلم کو کمان بنا کر اپنے دلی احساسات و جذبا ت کا اظہار کررہا ہوں۔یہ موضوع ہر محب وطن کے دل کی آواز ہے۔ارض وطن پاکستان کو گذشتہ ایک دہائی سے جس سلگتے ہوئے مسئلے کا سامنا ہے وہ دہشت گردی ہے۔

                پاکستان اس وقت دہشت گردی انتہاپسندی اور متشدد رویوں کے گرداب میں بری طرح پھنس چکا ہے۔خاص طور پر قبائلی علاقہ جات ان انتہاپسندوں کے متشدد رویوں سے شدید متاثر ہوچکے ہیں۔

                قبائلی علاقہ جات میں ان دہشت گردوں نے اپنی متشدد کاررائیوں کی بدولت ہزاروں بے گناہ، معصوم پاکستانیوں کی جان لے لی ہے اوران علاقوں کی سماجی معاشی حالت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

                افغانستان پر امریکی حملہ کے بعد بہت سے دہشت گرد ان قبائلی علاقوں مثلاً فاٹا اور جنوبی وزیرستان میں آکر چھپ گئے اور اپنی شدت پسند کارروائیوں سے حکومتی رٹ کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔یہاں کے مقامی افراد ان لوگوں کے ہاتھوں میں یرغمال بن کررہے گئے ہیں۔ ان دگر گوں حالات میں ریاست پاکستان نے ایک محب وطن ریاست کا ثبوت دیتے ہوئے ان دہشت گرد گروہوں سے بات چیت اور مفاہمانہ پالیسی کے تحت گفتگو اور مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ اس مقصد کے لیے ریاستی سطح پر قائم مذاکرتی ٹیم اور ان دہشت گردوں کے نمائندوں کے ساتھ کئی اہم مذاکراتی اجلاس انعقا د پذیر ہوئے مگر یہ سب مذاکرت لاحاصل اور بے سود ثابت ہوئے۔ریاست سے برسرپیکار متشدد گروہوں نے اس مذاکرتی عمل کو ریاست کی کمزوری اور مجبوری سمجھا اور اپنی کامیابی اور کارکردگی کو بڑھاتے ہوئے اپنی  افرادی قوت میں بے پناہ اضافہ کیا اور حیلے بہانے سے جیلوں میں قید خطرناک، قاتل اور سفاک مجرم ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ ریاست سے منواتے رہے۔

                تاہم 16دسمبر2014ء تاریخ پاکستان کا وہ سیاہ ترین دن ہے جب ان دہشت گردوں نے اپنی بربریت اور خون آشامی کی ہولی کھیلتے ہوئے پشاور میں آرمی پبلک سکول کے معصوم فرشتہ صفت طالب علموں کو بے دردی اور سفاکیت سے قتل کردیا اور بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے اس کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔اس خوفناک سانحہئ کے بعد عالمی میڈیا کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے حساس دل انسان نے یہی کہا کہ یہ درندہ صفت لوگ انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں اور یہ لوگ انسان کہلانے کے حقدار نہیں۔

                افواج پاکستان کی غیور اور بہاد ر قیادت کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم نے ریاست پاکستان پر یہ زور دیا کہ اب ریاست یہ پکا عزم کرے کہ ان انتہا پسندوں اور متشدد رویوں کے حامل افراد کا خاتمہ کرنا اشد ضروری ہے۔ خود کش دھماکوں پر قابوپانے کے لیے ریاست اور ریاستی محافظ اداروں کو آگے بڑھ ان دہشت گردوں کے نیٹ ورک میں گھس کر ان کمین گاہوں کو ہر قیمت پر ختم کرنا ہوگا۔جنہوں نے انتہاپسندی کی بے شمار کارروائیاں کرتے ہوئے ہزاروں بے گناہ،معصوم پاکستانیوں کو شہید کردیا ہے اور کئی سہاگنوں کے سہاگ اجاڑ دیئے ہیں۔لا تعداد پاکستانیوں کو اپاہچ و معذور بنا دیا ہے۔دہشت گردی اور متشدد رویوں کے خاتمہ کے لیے ریاست اگر پکے عزم کے ساتھ خلوص دل اور خلوس نیت سے آگے بڑھے تو وہ دن دور نہیں جب ریاست پاکستان دہشت اور دہشت گردی کے اس لعنت سے چھٹکارا نہ

پاسکے۔اس مقصد کے لیے ریاستی امور کے ماہر افراد کا جذبہ ئ حب الوطنی ہی وہ واحد راستہ اور ہتھیار ہے جس پر چل کر ایک ریاست آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ و مامون کرسکتی ہے۔

                انتہاپسندی کے خاتمہ اور متشدد رویوں کی کمی کے لیے ریاستی عزم و ہمت اور ریاستی، حفاظتی انتظام ہی وہ واحد اور آخری حل ہے جس کے سامنے یہ سفاک دہشت گرد اپنے گھٹنے ٹیک سکتے ہیں تاہم میری نظر میں ریاستی عزم کے ساتھ ساتھ قوم وملت کا ہر فرد اگر آگے بڑھ کر شاعر مشرق مصور پاکستان قلندرِ لاہوری حضرت علامہ محمد اقبال ؒ کے اس شعر کا عملی نمونہ بن جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک سے دہشت گردی کی لعنت اور متشدد رویوں کا خاتمہ نہ ہوسکے۔ وہ فرماتے ہیں:

نگاہ بلند، سخن دلنواز،جاں پرسوز

یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

                ملک سے متشدد رویوں کے خاتمہ کے سلسلہ میں کلیدی کردار افواج پاکستان کے سپہ سالار، امن کے پیامبر اور سفیر مجاہد اول جنرل راحیل شریف اور بین الاقوامی سطح پر مانی ہوئی افواج پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔

                الحمدللہ!  ہماری بہاد ر فوج کے غیور اور جانثار سپاہیوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر ان انتہاپسندوں کے تمام ٹھکانوں کا خاتمہ کرکے ان کو بھاگنے پر مجبور کردیا ہے۔افواج پاکستان نے شب و روز محنت کرکے شمالی علاقہ جات مثلا! فاٹا اور وزیرستان میں حکومتی رٹ کو قائم کرنے کے لیے آپریشن ضرب عضب شروع کیا ہے جسکے دور رس نتائج آنا شروع ہوچکے ہیں۔ ہماری ریاست پاکستان ایک نئے عزم اور ولولہ سے شمالی وزیر ستان میں افواج پاکستان کے نوجوانوں کی عظیم جانی قربانیوں کی بدولت ان متشدد اور شدت پسندوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوچکی ہے کیونکہ ان شدد پسندوں کا خاتمہ کرنا پولیس یا رینجر ز کے بس کی بات نہیں ہے یہ صرف اور صرف ریاستی عزم وہمت کوشش و لگن اور غیور پاکستانی افواج کی عظیم قربانیوں کی بدولت ہی ممکن ہوسکاہے۔

                حکومتی عزم نو اور حکومتی رٹ ہی وہ قوت اور جذبہ ہے جو کہ ایک قوم کی جان و مال، عزت وآبروکی حفاظت کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔اسی موضوع کو شاعر مشرق، مصور پاکستان نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ

آئین نو سے ڈرنا اور طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہی تو کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

                تاہم میرے نظریہ کے مطابق اگر حکومت وقت اپنے ریاستی عزم و ہمت کے ساتھ ساتھ درج ذیل چند باتوں کو عملی شکل دے تو ان علاقوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انتہا پسندی اور متشدد رویوں کی مصیبت سے چھٹکار ا حاصل ہوسکتا ہے۔

                دہشت گردی کا شکار تعلیمی ادارہ جات کو جلد ازجلد دوبارہ تعمیر کرکے ان اداروں میں ہنگامی بنیادوں پر تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا جائے۔ 1.

  1. دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کے گھر بار اور کاروباری مراکز کی از سر نو تعمیر حکومتی سطح پرکی جائے۔
  2. دہشت گردی کے شکار افراد کی ہر ممکن معاشی مدد کی جائے۔
  3. دہشت گردی اور انتہا پسندی کے متشدد رویوں کا بیروزگاری، تعلیم کی کمی، جہالت کے ساتھ گہرا تعلق ہے لہذا حکومتی عزم جہا ں دیگر امور کا انتظام و انصرام کرتا ہے وہاں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ شمالی علاقہ جات میں نوجوانوں میں پائے جانے والی بے روزگاری کی لعنت سے چھٹکار ا پانے کے لیے ٹھوس و مؤثر منصوبہ بندی کی جائے۔
  4. دہشت گردی اور متشدد رویوں کے خاتمہ کے لیے ضرور ی ہے کہ ریاست ان علاقوں میں یونین کونسل کی سطح تک جلد از جلد بلدیاتی الیکشن کروا کر اختیارات مقامی لوگوں کے سپرد کیے جائیں تاکہ ان لوگوں کا احساس محرومی ختم ہوسکے اور یہ قبائلی علاقہ جات قومی دھارے میں شامل ہوکر اپنا کردار باحسن وخوبی انجام دے سکیں۔
  5. صرف اور صرف تعلیم عام کرنے سے ان قبائلی علاقہ جات میں انتہاپسندی کے خاتمہ میں 100فیصد مدد مل سکتی ہے۔
  6. ریاستی عزم کے ساتھ ساتھ لوگوں میں دین اسلام اور حضرت محمد ﷺ کی سچی اور کھری تعلیمات مثلاً باہمی اتحاد ویگانگت، تحمل و برداشت کو رواج دے کر ان متشدد رویوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ریاستی عز م کے ساتھ ساتھ معاشرتی عدل و انصاف اور قانون کی عمل داری کا اصول ہر سطح پر لاگوکردیا جائے تو لوگوں کو سستے انصاف کی صورت میں ان متشدد رویوں سے نجات مل سکتی ہے۔
  7. دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث افراد کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے اور ان مجرموں کو دیگر لوگوں کے لیے نشانِ عبرت بنادیا جائے تو دہشت پھیلانے والے گروہوں کا خاتمہ ممکن ہے۔

                درج بالا تمام باتوں پر ریاست ایک پکے عزم کے ساتھ اگر آگے بڑھے تو کوئی بڑی بات نہیں کہ ریاستِ پاکستان سے ان متشدد رویوں کو ختم نہ کیا جاسکے۔

                آیئے!  ہم سب مل کر ریاستی عزم، انتہا پسندی اور متشدد رویوں کے خاتمے میں اپنا اپنا کردار ایک قوم بن کر ادا کریں۔

پاکستان زندہ باد            انتہاپسندی اور متشدد رویئے مردہ باد۔

[/pukhto]

Leave a Reply